تجزیہ 57

عراق، ترکی۔ شام مشترکہ سرحدوں کے علاقے سنجار میں دہشت گرد تنظیم کے وجود اور اس کے ممکنہ خطرات پر ایک جائزہ

1573708
تجزیہ 57

شمالی عراق میں ترکی اور شام کی مشترکہ سرحدوں پر واقع سنجار قصبہ  حالیہ  ایام میں ایک بار پھر ایجنڈے میں شامل ہوا ہے

سیتا  خارجہ پالیسیوں کے محقق جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔

سنجار  علاقے کو داعش کے خلاف جنگ کرنے کی مہرت تلے دہشت گرد تنظیم پی کے کے  کی جانب سے قبضہ کردہ اور تنظیم کے نام پر عراق۔ شام فرنٹ لائن پر  ایک اہم سطح کے لاجسٹک مرکز کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کا علاقے  میں وجود  ترکی کے لیے ایک سنگین خطرے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔  حالیہ ایام میں تنظیم کو علاقے سے نکال باہر کرنے کی خاطر اہم  پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔

عراق میں ترکی۔ شام  مشترکہ سرحدوں کے جوار میں سٹریٹیجک اہمیت کا حامل سنجار قصبہ ایک طویل مدت سے بغداد اور عربیل کے درمیان تنازعے  کا حامل ایک  علاقہ رہ چکا  ہے۔ علاقے میں یزیدی قوم کا قیام پذیر ہونا  دنیا   بھر کے اس مقام میں دلچسپی لینے  کا موجب بن رہا تھا۔ تاہم سال 2014 میں داعش دہشت   گرد تنظیم  کی جانب سے علاقے کے یزیدیوں کو ہدف بناتے ہوئے قتل عام کیے جانے، بعد ازاں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی کے کے کا  یہاں پر ڈھیرے جمانے نے ترکی کی دہشت گردی کے خلاف  جنگ   کے اعتبار سے بھی اس مقام کو مزید اہمیت دلانی شروع کر دی۔ دہشت گرد تنظیم PKK اس علاقے کے جغرافیائی محل وقوع  سے استفادہ کرتے ہوئے عراق۔ شام فرنٹ لائن  پر ایک اہم لاجسٹک مرکز کو اپنی زیر نگرانی رکھے ہوئے تھی اور اس کے ساتھ وہاں کے یزیدیوں کو اسلحہ کے بل بوتے  جبراً اس مقام کو اپنے مفادات کی خاطر ایک اہم علاقے کی نظر سے دیکھتی تھی۔ علاقے میں کانتوں انتظامیہ قائم کرنے کی کوشش کے وقت بیک وقت یزیدیوں  پر مشتمل مسلح وائے بی  ایس ایچ  قوتوں  کے ہمراہ  وسیع رقبے  پر حاکمیت قائم کرنے کی  کوششیں شروع کی گئیں۔ تا ہم ، اولین طور پر  عراقی کردی علاقائی انتظامیہ سے منسلک پشمرگوں کے خلاف انہیں نبرد آزما ہونا پڑا۔ بعد ازاں  ترکی کی اوپر تلے فضائی  کاروائیوں  نے پی کے کے کو علاقے میں کمزور بنانا شروع کر دیا۔ ترکی کی خفیہ سروس  کی بدولت  علاقے میں پی کے کے  دہشت گرد تنطیم کے سرغنوں کو ایک ایک کر کے ناکارہ بنایا جانے لگا۔

اس سلسلے میں یزیدیوں نے  بھی کافی حد تک پی کے کے بر خلاف اپنے مؤقف میں سختی لائی اور ان کی جانب سے تنظیم کو علاقے سے نکال باہر کرنے کے لیے دباؤ ڈالے جانے کا مشاہدہ ہوا۔ آخر کار ترکی کے مطالبے پر بغداد اورعربیل کے مابین PKK اور حشدی شابی کی طرح کے مسلح عناصر کو علاقے سے مکمل طور پر نکال باہر کرنے  کے زیر مقصد ایک معاہدہ قائم ہوا۔ مرکزی عراقی فوج کے علاقے میں داخل ہونے سے پی کے کے کی قوتیں علاقے سے انخلا کر گئیں تا ہم اس کا سنجار  کے مضافات میں اثرِ رسوخ تا حال برقرار ہے۔ ترکی  عراقی فوج کی جانب سے علاقے کا مکمل طور پر کنٹرول سنبھالنے پر مصر ہے اور اس کے لیے یہ ہر طرح کا تعاون فراہم  کرنے پر بھی کھلم کھلا زور دے رہا ہے۔ تا ہم اگر قلیل مدت کے اندر مطلوبہ اقدام نہ اٹھائے گئے تو  یکطرفہ طور پر ترکی کی فوجی کاروائی کا احتمال بھی پایا جاتا ہے۔

کیونکہ سنجار کو دہشت گرد تنظیم پی کے کے سے مکمل طور پر صاف کرنے کے عقب میں  ترکی  کے لیے اس تنظیم کا عراق۔ شام فرنٹ لائن پر وسیع پیمانے  پر رابطہ منقطع ہونے اور تنہا رہنے کا  مفہوم رکھے گا۔

گزشتہ ہفتے ترک وزیر ِ دفاع  خلوصی آقار کے بغداد اور عربیل کے دوروں کو دہشت گردی کے خلاف جدوجہد اور سنجار  کے معاملے پر بات چیت ہونے کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں