تجزیہ ۔ 56

ٹرمپ کے بعد جو بائڈن کی صدارت کو درپیش مسائل اور ممکنہ خارجہ پالیسیوں پر ایک جائزہ

1569217
تجزیہ ۔ 56

! 20 جنوری سے جو بائڈن  نے امریکہ کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے۔بائڈن گزشتہ 70 برسوں کے دوران سب سے زیادہ تعداد میں ووٹ لیتے ہوئے  منتخب ہونے والے ڈیموکریٹ امیدوار کے طور پر تاریخ میں رقم کیے گئے ہیں۔

سیتا سیکیورٹی تحقیقاتی ڈائریکٹر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔

ماہ نومبر سے ماہ جنوری تک کا عرصہ تخمینے مطابق کافی گہم گہما اور افراتفری  سے دو چار رہا۔ ٹرمپ  کے صدارتی کرسی کو  پر امن طریقے سے  نہ چھوڑنے کی توقع پائی جاتی تھی تا ہم رونما ہونے والے واقعات کی سطح کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکتا تھا۔ 6جنوری کو امریکی تاریخ میں ایک پہلا واقع پیش آیا  جس  میں ٹرمپ کے حمایتیوں نے کانگرس کی عمارت  پر دھاوا بول دیا ۔ اس خونی کاروائی میں 5 افراد ہلاک ہوگئے تو امریکہ کی  دنیا بھر میں ساکھ  مٹی میں مل کر رہ گئی۔ اس خونی کاروائی کے بعد ٹرمپ کے دوسری بار مواخذے کی تحریک چلائی گئی۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن   میں وہی منظر سامنے آیا جو کہ ہم اکثر و بیشتر عراقی دارالحکومت بغداد میں دیکھتے  رہتے ہیں۔ 25000 سےزائد امریکی فوجیوں نے کانگرس کی عمارت کا محاصرہ کر لیا۔ ان تمام تر واقعات کے رونما ہونے کے وقت  امریکہ میں کورونا وبا سے ہلاکتوں کی تعداد 4 لاکھ کی حد کو پار کر گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ بائڈن کو کسی ملبے کا ڈھیر وراثت میں  ملا ہے تو بے جا نہ ہو گا، بائڈن آیا کہ کس طرح کے امریکہ کی نشاط کرنے کے خواہاں ہیں؟

اس سوال کا بائڈن اور ان کی ٹیم کا جواب کافی واضح دکھائی دیتا ہے بائڈن  کا کہنا ہے کہ امریکہ اب اپنی اصلیت کو واپس لوٹ آیا ہے۔ اس بیان کو  لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے بائڈن کے عمومی طور پر داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی مفاہمت کو پیش کرنے والے  ایک فریم کی نگاہ سے دیکھا ہے۔  امریکہ کی اپنی اصلیت کو واپسی کیا مفہوم رکھتی ہے؟  بائڈن کی خارجہ پالیسیوں  کے فریم کو عمومی خطوط کے ساتھ  وضع کرنے والے  اس موقف کے پہلے ستون کو امریکی قیادت کی از سر تو تاسیس   کو تشکیل  دیتا  ہے۔ وزیر خارجہ بلنکین  نے دعوی کیا ہے کہ اگر امریکہ عالمی نظام کی قیادت نہیں کرتا تو اس کے پیدا کردہ خلا کو  دوسری طاقتیں پر کر رہی ہیں ، جس نے عالمی نظام کو عدم استحکام کی جانب دھکیلا ہے  بائڈن خارجہ پالیسیوں میں اولین طور پر امریکی قیادت کی بحالی کے لیے کوششیں صرف کرنے کی مجبوری سے آگاہ ہیں۔  اس قیادت کے  لیے دو اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں ۔ پہلا متاثر ہونے والی ساکھ کی بحالی جبکہ دوسرا  معاملہ چین اور روس کے مد مقابل امریکی لیڈرشپ کی حیثیت کو دوبارہ سے حاصل کرنا ہے۔

بائڈن کے لیے ایک دوسرا اولیت کا معاملہ عالمی اداروں کی اہمیت کو دوبارہ سے بڑھانا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ  کو اقوام متحدہ، نیٹو، عالمی ادارہ صحت کی طرح کی  نمایاں عالمی تنظیموں کے ساتھ سنگین سطح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جو بائڈن کو خارجہ پالیسیوں میں اولین  طور پر عالمی اداروں کو دوبارہ سے طاقتور بناتے ہوئے امریکی قیاد ت  کا  ان پر اثرِ رسوخ میں اضافہ کرنا بھی شامل ہیں۔ اس دائرہ کار میں کثیر الجہتی بائڈن دور میں امریکی  خارجہ پالیسیوں میں ایک اہم مقام  رکھے گی۔

بائڈن کی اولیت کا تیسرا معاملہ  عالمی معیشت میں امریکی قیادت  کی بحالی میں بعض ترامیم کرنا  شامل ہیں۔ اس  نکتے پر ہمارے ذہنوں میں ٹرمپ کےد ور میں امریکہ۔ چین تجارتی جنگ آتی ہے۔ بائڈن کا چین کو ایک رقیب  کی نگاہ سے دیکھنے کی حقیقت قدرے عیاں ہے، تا ہم یہ چین کو ٹرمپ یا پھر ریپبلیکنز کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ قومی سلامتی مشیر سولیوان  کی جانب سے ’’چین کے ساتھ مل کر زندگی بسر کرنے‘‘ کے فارمولے کے امریکی خارجہ پالیسیوں کی ایک بنیادی  لکیر ہونے کا بیان بائڈن کے چین کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے  اس کے ساتھ مصالحت قائم کرتے ہوئے چین کو ایک دوسرے سانچے میں ڈھالنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا  مظہر ہے۔ تا ہم بائڈن  کے اقتصادیات سے متعلق مسائل محض چین تک محدود نہیں ، کورونا وبا سے پیدا ہونے والے اقتصادی حالات  میں بہتری لانا بھی بائڈن کی معاشی پالیسیوں کو کافی حد تک مصروف  رکھے گا۔

امریکی صدر کے لیے اولیت کا چوتھا معاملہ عالمی قوانین اور حقوق پر مبنی لیبرل نظام کی ازسر نو تشکیل پر مبنی ہو گا۔ اس اعتبار سے عالمی  معمولات کی دوبارہ سے بحالی کرتے ہوئے امریکی قیادت کے امیج   میں گراوٹ کو دور کرنے والی پالیسیوں کا تعین ان کے اولیت کے معاملات میں شامل ہو گا۔ یہ چیز امریکہ  کو عالمی نظام   کو اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے  والے عالمی اصولوں پر استوار ایک نئے  نظام کے قیام کو لازمی  بنا رہی ہے۔ اس  عمل کے لیے امریکہ کو کہیں زیادہ تعداد میں اتحادیوں کی ضرورت پیش آئے گی۔

ان چار ستونوں کےآیا کہ  امریکہ کی عالمی نظام میں واپسی کا موقع  فراہم کر سکنے  پر سوال قدرے اہم  ہے۔ بائڈن کے ٹرمپ سے حاصل کردہ ملبے کے ڈھیر   اور عالمی نظام میں  رونما ہونےو الی تبدیلیاں  ان تمام عوامل کو عمل پذیر دے سکنے کے  بائڈن کے لیے قدرے مشکل ہونے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔



متعللقہ خبریں