تجزیہ 55

روس کے لیبیا میں اثر رسوخ اور اس کے منصوبوں پر ایک جائزہ

1564476
تجزیہ 55

لیبیا، شمالی افریقہ، مشرقی بحیرہ روم اور جنوبی یورپ کے  لیے جیو پولیٹکل محل و قوع کے لحاظ سے ایک اہم ملک کی حیثیت  رکھتا ہے تو یہ توانائی کے وسائل  سے بھی مالا مال  ہے۔ اس اعتبار سے ملک میں جاری طاقت کی جنگ میں علاقائی و عالمی قوتیں مؤثر بننے اور لیبیا کے مستقبل کا تعین کرنے کے معاملے اپنا اثر رسوخ قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔ ان ممالک میں روس پیش پیش ہے۔

لیبیا ، معمر قدافی کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے سے قبل ایک سوشلسٹ ملک ہونے کے باوجود ماسکو  سے خود مختار  طرز پر اپنے سفر پر قائم دائم تھا۔ اس کے باوجود  لیبیا اور روس کےباہمی تعلقات  کافی گہرے  عسکری اور اقتصادی تعاون پر استوار تھے۔ تا ہم سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے  کے بعد یہ تعاون ماسکو کے لیبیا پر عائد  عالمی پابندیوں  میں سیاسی حمایت کے باعث نکتہ پذیر ہو گیا۔ تا ہم پوتن کے بر سر اقتدار ہونے کے بعد طاقت پکڑنے والا روس عالمی سیاست میں واپس لوٹنے لگا تو اس نے لیبیا کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو بھی از سر نو قائم کیا۔ اہم سطح کے توانائی و اسلحہ کے معاہدے قائم کرتے ہوئے اس نے لیبیا میں اپنا اثرِ رسوخ بنانا شروع کردیا ۔ یہ عمل بہار ِ عرب کے اثرات کے ساتھ ملک میں چھڑنے والی بغاوت  تک جاری رہا۔ نیٹو کی قیادت میں ہونے والی عسکری مداخلت سے قدافی کا تختہ الٹ دیا  گیا تو روس اس دوران اس کھیل سے باہر رہا۔

روس نے لیبیا میں جاری خانہ جنگی کا دور سے ہی تماشا دیکھنے کو ترجیح دی تو اس نے ملک میں پیدا ہونے والے طاقت کے خلا سے استفادہ کرتے ہوئے سال 2017 میں دوبارہ سے اس ملک میں فعال بننا شروع کردیا۔باغی جنرل حفتر سے اس نے قربت قائم کرتے ہوئے ویگنر  کرائے کے فوجیوں کو  لیبیا روانہ کرتے ہوئت  خاصکر ملک کے مشرقی علاقوں میں حاکمیت قائم کر لی، اس نے متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ساتھ  تعاون قائم کرنے کو بھی ترجیح دی۔

آج روس کی لیبیا پالیسیاں سرکاری طور پر قومی مطابقت حکومت اور لیبیا نیشنل آرمی  کو مذاکرات کی میز پر لانے کا ہدف رکھتی ہیں۔ ایک غیر جانبدار ریفری  کے کردار کو سنبھالنے کا درپے ہونے والا روس  اپنے آپ کو بحرا ن کے سیاسی حل کے خواہاں ایک اداکار ہونے کے طور پر  پیش کر رہا ہے۔ تا ہم ، میدان ِ جنگ میں اس کا تیور بالکل متضاد ہے۔ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ ماسکو حفتر قوتوں کو نہ صرف سیاسی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عسکری معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔ روسی  ہتھیار اکثر و بیشتر  لیبیا نیشنل آرمی کے جنگجوؤں کے ہاتھ میں دکھتے ہیں تو کرائے کے فوجی جھڑپوں میں  عملی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن کریملن کرائے کے فوجیوں کے اس ملک میں وجود اور اسلحہ فروخت کرنے  سے انکار کرتا چلا آرہا ہے۔

حالیہ برسوں میں ماسکو کی لیبیا پالیسیوں میں کرائے کے فوجی اور رابطہ گروپ کی طرح کے ’’غیر روایتی طریقہ کار‘‘ نمایاں ہونے کا مشاہدہ کراتے ہیں۔ اس لحاظ سے روس  کی لیبیا میں خارجہ پالیسیوں کی ڈگر  روس کے مشرق وسطی میں نمائندہ کردار کو  اپنے سر لینے والے جمہوریہ چیچنیا کے صدر رمضان قادیروف  اہم سطح پر  کنٹرول کر رہے ہیں ، علاوہ ازیں رمضان قادیروف کے مشرا  آدام دیلم خانووف اور لیو دینگووف  کی ہمراہی میں سال 2015 میں تشکیل پانے والے لیبیا۔روسی رابطہ گروپ کو تشکیل دیتے ہیں۔

آخر کار روس  لیبیا میں طاقت کے خلا سے استفادہ کرتے ہوئے میدان میں مؤثر بنا  اور اس نے حفتر کو فوجی معاونت فراہم کرنا شروع کردی۔

سیف الااسلام نے اولین طور پر قدافی خاندان کے  ساتھ تعلقات کو فروغ دیا۔ متحدہ عرب امارات اور مصر  جیسے ممالک سے  تعاون قائم کرتے ہوئے  ویگنر کو لیبیا میں متعین کیا اور خاصکر مشرقی علاقوں میں اہم سطح کا اثرِ رسوخ بنا لیا۔ موجودہ  حالات میں اولین طور پر  یہ اپنی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کا متمنی ہے۔ روس  کے لیبیا  میں اہداف میں سے ایک ، روز نیفٹ، ٹیٹ نیفٹ اور گیس پروم  جیسی روسی بڑی توانائی فرموں  کے لے راہ  ہموار کرنے والے کسی موزوں سیاسی ماحول کو قائم کرنا اور اس طرح بحیرہ روم توانائی منڈی  میں ایک مؤثر اداکار کی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔  مزید برآں  ماسکو کی لیبیا کے اندر اقتدار کی جنگ میں شرکت ، ملک  میں اس کے وجود کو پائدار حیثیت دلانے  والی بعض سیاسی فتوحات حاصل کرنے  کی خواہش  کی کھلی عکاس ہے۔ علاوہ ازیں  ماسکو خطہ افریقہ   اور خاصکر مشرقی بحیرہ روم  کے علاقے میں اپنے وجود کو مزید وسعت دینے  کا ہدف بھی رکھتا ہے ۔ اس طرح علاقے کے طویل ترین  بحیرہ روم کے ساحلوں کے مالک اور  توانائی کے وسائل سے مالا مال لیبیا، روسی خارجہ پالیسیوں  کے ایجنڈے میں نمایاں مقام بنا چکا ہے۔ اس کی اقتصادی اہمیت کے باجود   لیبیا  جنگ کا حل ماسکو کے لیے کسی حیاتی مسئلے کا حامل نہیں ۔  اس کے باوجود روس، لیبیا بحران میں جگہ بناتے ہوئے دیگر علاقائی اداکاروں  کے سامنے اپنی طاقت کو منوانے کا مقصد رکھتا ہے۔



متعللقہ خبریں