تجزیہ 35 (کردی سیاست)

ترکی میں 'کردی سیاست' اور 'کردی تحریک' کے پس پردہ حقائق پر پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1260196
تجزیہ 35  (کردی سیاست)

مغربی ممالک اور ترکی میں بعض حلقوں کی جانب سے  PKK اور /یاپھر   PKK   سے دُور نہ رہنے  والی عوامی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے " کردی تحریک "، "کردی سیاست"  کی طرح کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس اظہار کے ذریعے ایک دہشت گرد تنظیم اور اس سے منسلک ایک سیاسی  جماعت کو ایک قوم کی'تحریک' ، 'سیاست'  کے  طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا  مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ  ۔۔۔

PKK ، مختلف ممالک میں ، ترکی میں ، شام میں، ایران اور عراق میں مختلف مخفف اور ناموں کے ساتھ مختلف ادوار میں دہشت گرد کاروائیاں کرنے والی ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ PKK  کے ان ممالک میں حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں  سول۔فوجی، عورتیں ، بچے، شیر خوار بچے ہلاک ہو ئے،  لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھر بار کو ترک کرنے پر مجبور ہو ئے  اور ہو رہے ہیں۔مشرقِ وسطی  کو از سر نو تشکیل دینے کی خواہاں طاقتوں کے ایک مہرے کے طور پر ، PKK کی اپنے آپ کو کردی باشندوں کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں اس کی  پالیسیوں کا ایک تقاضا ہیں۔ ترکی، شام، عراق اور ایران کا بٹوارہ  کرتے ہوئے ، صد ہا سال سے ترکوں اور عربوں کے ہمراہ اسلام   کا علم اٹھانے والے کردی باشندوں کو قائم کی جانےو الی دہشت گرد مملکت کے ذریعے اسرائیل کی سلامتی  کی راہ میں خدمات ادا کرنے کے خواہاں سامراجی حلقے    اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اکیڈمشنز  اور مصنفین کا موقف  بھی ذی فہم ہو سکتا ہے۔

اس توڑ موڑ اور مسخ شدہ  دعووں کا   ذی  شعور ، علمی یا پھر سماجی مترادف نہیں ہو سکتا۔ تمام تر جرمنوں، عربوں، ترکوں  کو واحد تحریک/سیاست کے طور پر  دیکھنا جس حد تک ذی فہم اور دانشمند  ایک موقف    ہے اسی حد تک کردوں کو دیکھا جانا  اس سے ملتا جلتا ایک نظریہ اور موقف ہی ہو گا۔ لاکھوں  انسانوں اور مختلف  مذاہب  کے حامل معاشروں کو ایک جزو کی نظر سے دیکھنا ایک اجتماعی نقطہ نظر کا اظہار ہے۔ اگر ہم "کردی سیاست"   کے نظریے کو بالائے طاق رکھیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اولین طور پر تمام تر کردی باشندے محض ترک شہری نہیں ہیں۔  ہم ترکی، ایران، عراق، شام اور مغربی ممالک میں آباد ایک معاشرے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔  جی ہاں مملکتوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا ایک معاشرے  کی حیثیت سے اطالوی، فرانسیسی   اور ترک سیاست کا   ذکر ممکن ہے؟  ترکوں کی سیاست؟ بیان کردہ ترکی  کے کردوں کی سیاست ہر سول اور جمہوری معاشرے کی طرح، کردی باشندے بھی ایک واحد جزو نہیں بلکہ   کئی  طرح کے ہیں۔ اولین طور پر تمام تر کردی لوگ ہر معاشرے کی طرح  سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور نہیں اور نہ ہی سیاست  میں  دلچسپی رکھنے والے  سارے لوگ ووٹ دیتے ہیں، ووٹ دینے والے  بھی  صرف عوامی ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے۔ آک پارٹی بھی کردوں  سے کم ازکم ایچ ڈی پی کی حد تک ووٹ لیتی ہے۔خدا پارٹی  کے ووٹوں کا تناسب کم ہونے  کے ساتھ ساتھ  بعض مظاہروں میں لاکھوں انسانوں کو یکجا کرنے کا مشاہدہ  ہوتا ہے۔  علاوہ ازیں ایچ ڈی پی  کو ووٹ دینے والے تمام تر رائے دہندگان بھی PKK کی کاروائیوں کی حمایت  اور پشت پناہی نہیں کرتے ۔

مختصراً  کسی دوسرے معاشرے کے لیے  نہ کہے جا سکنے والے الفاظ کو ایک قبیلہ ہونے  کی شکل میں کردوں  کے لیے استعمال کرنے کی ہر گز کوئی  وضاحت نہیں ہو سکتی۔ یہ اظہار کردوں  کی تحقیر کرنے کے مترادف ایک  نظریاتی  موقف ہے۔

میں ذاتی طور پر  ترکی میں  متعدد عقل سلیم کے حامل  انسانوں کی طرح PKK اور HDP  کے درمیان تعلق  قائم نہ کیے جانے  اور اس سیاسی جماعت کے لیے سول سیاست کے مواقع  پیدا  کرنے کے حق میں  ہوں۔ تا ہم  اس پارٹی سے منسلک افراد کا  ہر وقت دہشت گردوں کو  سلام پیش کرنا اور ان کی طرفداری کرنا مجھ جیسی سوچ رکھنے والوں کے  موقف کی کوئی وقعت باقی نہیں چھوڑتا۔ جب ہم سیاست کو ڈیموکریسی، آزادی،   سول زندگی کو نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم اور اس کے اجتماعی نقطہ نظر کی ماہیت اختیار کرنے کا  مشاہدہ کرتے ہیں  تو پھر ان کی سول سیاست کی جانب لوٹنے کی راہیں بند ہو جاتی ہیں۔

جب منظر عام پر زیادہ پیچیدہ صورتحال موجود نہیں ہے تو ترکی  میں بعض حلقوں  کی  جانب سے PKK اور HDP کو 'کردی سیاست'  کے طور پر پیش کرنے  کے اصرار  کے پس پردہ اسباب  کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ لوگ کیونکر پی کے کے اور سامراجیت کی زبان کے سامنے گردن خم کر دیتے ہیں؟  حقائق کو مسخ کرنے کی کوششیں  نہ صرف ترکی بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی زیر بحث ہو سکتی ہیں۔

آئیے ذہن  میں فوری طور پر آسکنے والے بعض اسباب پر غور کرتے ہیں۔

PKK کا خوف: اپنی  زندگیوں کو جمہوریت، آزادی پسند اور اکثریت کے  حامل نظریات کے ساتھ   زندگی بسر کرنے والے ہم جیسے انسان، زیادہ تر دہشت گرد تنظیموں کے دباو،  پیدا کردہ موت کے خوف کو فراموش کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں محض دہشت گرد کاروائیاں کرنے پر ہی ایجنڈے  پر آتی ہیں اور کچھ مدت بعد ان کو بھلا دیا جاتا ہے۔ در اصل دہشت گرد تنظیمیں  خوف پیدا کرنے، دباو ڈالنے اور بعض نمایاں شخصیات کو براہ راست ہدف بناتے ہوئے بھی  اپنے گندے عزائم پر کار فرما رہتی ہیں۔ لہذا  تمام تر کردوں کی 'کردی سیاست'  کے طور پر اجتماعی  جدوجہد   کے ایک حصے کو  PKK کے  دباو کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ کردی روشن خیال شخصیات جب ان سے ہٹ کر نظریات کو زیر ِ لب لاتی ہیں تو ان کو منظر عام سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

ہم راہ  دباو: "کردی سیاست"  کی اصطلاح استعمال کرنے والوں کا  ایک طبقہ   ترکوں سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ ترک روح کی حامل  بعض اہم  شخصیات کے  ان کے ماضی کا جائزہ لینے سے ان کے ایک انقلابی رسم و رواج سے تعلق رکھنے کا  انداز ا ہوتا ہے۔  اس اصطلاح پر مصر  ترک حلقوں کی  یہ  کوشش مارکسسٹ ۔ لیننسٹ    نظریے سے تعلق رکھنے والی PKK  کے ساتھ  'انقلابی  تعاون'   کی نظر سے دکھ سکتی ہے۔ اس حلقے  کے اجتماعی نقطہ نظر  کے قریب   ہونے کی ایک دوسری وجہ، انقلابی  روایتی سوچ سے پوری طرح نجات نہ پانا اور ڈیموکریسی، آزادی اور باہمی تعاون  جیسے نظریات  سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہونا ہے۔

ترکی  مخالف عالمی حلقوں سے  اس کا الحاق: "کردی سیاست" پر مصر ہونے والوں کا ایک حلقہ  ترکی مخالف  عالمی حلقوں کے ساتھ بھی ایکا کر چکا ہے۔ یہ ان سے مالی امداد اور چندہ بھی وصول کرتا ہے۔

حکومت مخالفت: حکومت مخالف بعض روشن خیال شخصیات کے برتاو کو سمجھنا بھی اس چیز کی توضیح کر سکتا ہے۔ حکومت اور ایردوان مخالفت کے نام پر بعض پڑھی لکھی شخصیات  منشیات اسمگلنگ  کرنے والی اور معصوم بچوں تک کے خون سے ہاتھ رنگنے والی  دہشت گرد تنظیم کی حمایت  کرنے کی حد تک ان کے زیر ِ اثر  جا سکتی ہے۔

روشن خیال  شخصیات کا اجنبی بننا: سماج مخالفت بھی کہا جا سکتا ہے۔ مغرب کے علاوہ کے معاشروں میں  دو صدیوں سے مغرب نواز بننے  کی کوششوں کا مشاہدہ ہوتا   ہوا آیا ہے۔  جسے ایک شاعر سزائی قارا کوچ نے  کیا خوب بیان کیا ہے۔ عہد عثمانیہ میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے وطن کے لیے خدمات ادا کرنے  کے زیر تحت مغرب کو تعلیمی مقاصد کے لیے روانہ کردہ  زیادہ تر لوگ اپنے معاشرے کے لیے ہی اجنبی بن گئے اور یہ مغرب سے محبت کرنے والی شخصیات کے  طور پر وطن لوٹے۔

جبکہ جمہوریت کے دور  میں بعض ترک مغرب میں قیام  کے ساتھ  اپنی ثقافت، ماضی اور تہذیب سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے  مکمل طور پر ثقافتی اعتبار سے  مغرب کے سامنے جھک گئے۔ خلاصے  کے طور  پر ایک لیفٹ بازو کی پارٹی کے لیے'ترک سیاست'    کی اصطلاح استعمال کرنا جس حد تک ذی فہم ہے اسی حد تک  پی کے کے اور ایچ ڈی پی کے لیے 'کردی سیات' کی اصطلاح ہم پلہ ہے۔  دہشت گرد تنظیم اور عوامی ڈیموکریٹک پارٹی  کا خوف اور دباﺅجیسے اسباب  کچھ بھی کیوں نہ ہوں  یہ آزادی پسند اور با عزت اور پر امن زندگی کے علم بردار کردوں  کی تحقیر کے مترادف ہے۔ روشن خیال شخصیت ہونے کا واہ ویلا مچانے والوں کو دہشت گردی اور سامراجی  قوتوں کے سامنے گردن خم کرنے  کے بجائے اپنی عزت و قار میں اضافہ کرنے  کی راہ اپنانی چاہیے۔



متعللقہ خبریں