حالات کے آئینے میں 45

زبان قلب سے بولنا ہی سننے والے کو گرویدہ بناتا ہے

841709
حالات کے آئینے میں 45

عالمی زبانوں کی ویب سائٹ  Ethnologue  کے مطابق اس وقت دنیا میں 7 ہزار  سے زائد زبانیں بولی جاتی  ہیں۔ جن میں کچھ تو کروڑوں لوگ بولتے ہیں جبکہ کچھ بہت چھوٹے گروہوں تک محدود ہیں، لیکن  دنیا کی نصف سے  زائد  آبادی  ان میں سے محض  23 زبانوں  کے ساتھ ہی  روز مرہ کی زندگی گزارتا ہے۔ ان سب کا ایک ہی مقصد اور کام ہے؛ انسانوں کے درمیان خیالات، معنی اور احساسات کو پہنچانا۔ زبانوں کی اس انتہائی متنوع دنیا میں ہم اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے آپ اور دوسرے انسانوں کو کچھ کہتے ہیں۔ ہم الفاظ اور جملوں کے ذریعے اپنے برتاؤ اور مؤقف کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثالی اعتبار سے تو ہم اپنے منطقی اظہار و بیان سے  باہمی  اختلافات کو حل کرلیتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیشہ ایک ہی زبان بولنا ،ہمیں اپنی سوچ و افکار کا درست اظہار کر سکنے کا موقع فراہم کرتا  ہے؟

البتہ کئی ایسی مثالیں بھی پائی جاتی  ہیں جہاں مسائل اور تنازعات پر قابو پانے کے لیے ایک ہی زبان بول لینا معاون  ثابت نہیں ہوتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں اپنے ساتھ رہنے والے انسانوں کے دل و دماغ تک پہنچنے کے لیے لسانی صلاحیتوں سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ  نکتہ ہے جس پر  مولانا جلال الدین رومی  نے فرمایا ہے  کہ  "ایک جیسی زبان بولنے کے بجائے یک  زبانِ قلب بولنا زیادہ بہتر ہے"۔ با معنی خیالات جن کا اظہار زبان سے کیا جاتا ہے یہ صرف  اس صورت میں مؤثر ثابت  ہوتے ہیں جب یہ  صرف دماغ میں  ہی نہیں بلکہ سننے والے  کے دل میں  بھی جا اُتریں۔ یہ الفاظ اس وقت ہماری روح اور دماغ پر اثر ڈالتے ہیں جب یہ زبانِ قلب سے بولے جائیں۔

دل کی زبان سے بولے جانے والے الفاظ صرف اسی وقت سنے جا سکتے ہیں جب وہ دوسرے دل سے آتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہمیں دوسرے دلوں سے بات کرنے کے لئے اپنے دلوں کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ رومی کا خیال تھا کہ تمام انسانی مخلوق کو یہ زبان بولنے کی صلاحیت بخشی گئی ہے۔ در حقیقت، اسلامی دانشورانہ روایت میں دل کو دماغ اور خرد کی طرح ایک علمی عضو تصور کیا جاتا ہے۔ دل صرف احساسات اور جذبات کا مسکن ہی نہیں، خیالات، افکار  اور مطالب کا مخزن بھی ہے۔ جدید فلسفے کی ایک پیش قیمت غلطی یہ تھی کہ اس نے انسانی دل کو ایک خوشگوار اور پُراحساس علمی مقام سے  ہٹا کر ایک نری جذباتی اور نفسیاتی فکلیٹی میں پھینک دیا۔

دماغ اور دل ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ اس کے برعکس یہ  انسان کی نشو ونما  کرتے ہوئے اسے  مکمل کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بغیر بھی انسان ادھورا  اور کچا  رہتا ہے۔ ذہن  و منطق، ہمارے تمام خیالات و احساسات کو خود سے آگے نہیں بڑھا سکتے کیونکہ ہم "سوچ وبچار کرنے والی مشینوں" سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ ہم انسانی مخلوق ہیں جو دوسروں کے بارے احساسات بھی رکھتے ہیں۔ جو مانگتے ہیں، جو چیختے ہیں، جو خوبصورت چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جو اس فانی دنیا میں اپنی موجودگی کے مطالبوں   پر غور کرتے ہیں۔

خیالات و  افکار کے واضع  اور منطقی اظہار کے لیے  اکیلا دل    نا کافی ہے۔ دل اور دماغ دونوں مل کر ہمیں مربوط خودی عطا کرتے ہیں، ایسی خودی جو ایک ہی وقت میں  اس دنیا کو عقلی اصولوں اور اعلیٰ ارفع اقدار کی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ ہم اپنے دماغ اور زبان سے معنٰی تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان مفہوم تک رسائی کرنا  بھی لازمی ہے جو  چیزوں  کی  فطری بناوٹ کے اندر پنہاں ہوتے ہیں۔ ہم چیزوں کو سمجھنے کے لیے ایک ذہنی ڈھانچہ بنا کر چلتے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چیزیں ہمارے سامنے ایسے ہی پیش ہوتی ہیں جیسے ساخت کے ساتھ ان کے مطالب اور اہمیت۔ ہم جتنا زیادہ ان مفہوم کو کھولتے ہیں اتنا زیادہ تخلیق کرتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دماغ اور دل ایک دوسرے کو طاقت دیتے ہیں اور ہمیں حقیقت کی ایک جامع تفہیم عطا کرتے ہیں۔

اگر ہم دوبارہ   مولانا رومی کے اقوال  کی طرف مڑتے ہوئے یہ سوال دریافت کرتے ہیں کہ  وہ زبان قلب کو زبانِ عضو کے بولنے پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟۔ اس کی وجہ بہت سادہ تاہم  گہرائی کی حامل ہے۔ ایک جیسی لسانی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کے خیالات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن زبان قلب چھوٹے چھوٹے اختلافات پر قابو پا کر انسانی سمجھ کو ایک بلند سطح پر لے جاتی ہے یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے جیسا ہے جہاں سے ہم ایک حصے کے بجائے پوری وادی کو دیکھتے ہیں۔ ہم جتنا اوپر جاتے ہیں ہماری سوچ  زیادہ گہری اور وسعت حاصل کرتی جا رہی  ہے۔ غیر منہضم شدہ کچی معلومات کے بڑے ذخیرے کے بجائے یہ ایک گہری سوچ و بچار ہوتی ہے جو ہمیں دانشورانہ پختگی، ایمان، نیکی اور رحم دلی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وہ اقدار اور اصول ہیں جو ہماری انسانیت میں بہتری لاتے ہیں۔

یہ رومی کی عالمگیر اپیل کی وضاحت کرتا ہے، اگرچہ انہوں نے ایک خاص وقت اور خاص مقام پر ایک مخصوص زبان میں اپنی ابدی شاعری لکھی۔ تمام داناؤں کی طرح، وہ چیزوں کے اظہار و بیان سے بالاتر ہو کر عالمگیر اور ابدی مفہوم  تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ مطالب کو بنانے کے بجائے تلاش کرتے ہیں اگرچہ پہلے عمل کو نظر انداز نہیں کرتے۔ بہرحال وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو گہرے مفاہیم و مطالب کو اپنی خوبصورت شاعری اور دل و دماغ کو بدلنے والی حکایات میں بیان کرنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ خود کو مفاہیم تک محدود کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مطالب ہی مستقل رہتے ہیں۔ اور مفہوم  ہی ہمیں آزاد بناتے ہیں۔

 



متعللقہ خبریں