حالات کے آئینے میں 18

مسلم امہ کی دماغی و روحانی تقسیم

722514
حالات کے آئینے میں 18

"مسلم  اُمہ کو   مفلسی  کے ماحول سے    نجات پانی چاہیے اور شعوری و  اخلاقی فریم کی از سر نو نشاط کرنی چاہیے۔  اپنے  رسم و رواج اور بنیادی اقدار سے    وابستگی کے وقت  انہیں   اپنے  افق   کی جانب وسیع نکتہ نظر   سے   دیکھنا ہوگا"۔

مسلمان ملکوں  کو  انتشار، غربت  اور  بُری انتظامیہ  کے اضطراب کا سامنا ہے۔ سیاسی   تقسیم، سیاسی  عالمین  کی جانب سے   دارالسلام  امن  و امان کی حامل  سر زمین     کے طور پر پیش کردہ   ایک وسیع جغرافیہ پر ہمارے سامنے  ہے۔  خانہ  جنگی،  نسلی و مذہبی فسادات، قبضے،  فوجی مداخلت، ناکام ریاستیں  و کمزور حکومتیں مسلمان  ملکوں کے قدرتی و انسانی   وسائل  کو نقصان   پہنچا رہی ہیں۔دوسری جانب  سیاسی      تقسیم و  انتشار سے    زیادہ  خدشات کن    چیز  اُمت ِ مسلم کو  کسی گرداب کی طرح اپنی لپیٹ  میں  لینے والی دماغی و روحانی  تقسیم   ہے۔

مسلمان   سلطنتوں ، مملکتوں اور امارات   کو سیاسی    تفریق   بازی اور طاقت  کی کشمکش   سے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ تا ہم  بلقان  اور افریقہ سے لیکر  مشرق وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا تک   کے وسیع محل و قوع  میں مسلم   معاشروں کو   یکجا کرنے والا   سماجی   نظریہ ہمیشہ   ہر چیز پر حاوی   بنتا چلا آیا ہے۔  عالم اسلام   کو  دماغی و روحانی     طور پر  یکجا کرنے والی چیز سیاسی، نسلی اور مذہبی    تفریق سے     بالا تر تھی، لہذا آج اسے  اسی ماحول و   نظریے کو دوبارہ   جنم دینا ہو گا۔

روایتی  مسلمان معاشروں کا  شعوری   نکتہ نظر اور سماجی  تخیل  وحدت، انصاف اور  عظمت  کی بنیادوں پر استوا ر  ہوا تھا۔ علاوہ ازیں  عشق  ِ الہٰی اور  بنی نو انسانوں سے محبت   سمیت  اللہ کریم کا   لامتناہی   رحم و کرم  اور  بخش دینے کی خصوصیات  اس صورتحال پر   قائم  کردہ  ایک  دوسرا مسند ہے۔  انسان  اپنے یقین  و ایمان کے ایک  عنصر  کے طور پر اللہ تعالی،  فطرت اور دیگر انسانوں  سے  محبت کرنے پر مجبور ہے۔  یہ دنیا  انسانوں   کے لیے کسی امانت  کی طرح ہے اور  ان سے  اس امانت کا احترام کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔ یہ دنیاوی   سوچ  بیک وقت کرہ ارض کے  ایک  فانی مقام     ہونے   اور ممکنات  کا  دفاع کرتی تھی۔ ہم  جس دنیا میں  زندگی  بسر کر رہے ہیں یہ  بذات ِ خود اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں  ہے اور نہ ہی  اپنے آپ تک اکتفا  کرنے  والی ایک  کمیت   ہے۔  یہ   کسی مقصد  کی راہ  میں محض اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور   اس دنیا میں   یقین، انصاف اور عظمت  کے قیام کے   مواقع و امکانات  فراہم کرتی    ہے۔ محض ہمارے نیک   اعمال اور خیراتی    کام  ہی ہماری انسانیت   کا  پیمانہ ہیں۔

یہ خاص دنیاوی سوچ اور انسانوں  کے لیے اس کا مفہوم  ،مسلم  امہ  کے تمام تر انسانی   برتاؤ  اور رہن سہن   میں  اثرِ انداز تھا۔ ایک کسان  اور   موچی سے لیکر  معماروں  تک ،  عالمین، تاجروں اور سرکاری شخصیات  حتیٰ  ہر کس  اس دنیا کی   مشکلات اور بحرانوں سے ہٹ کر عشق  کی حقیقت   کے شعور اور  اسکے روحانی  ماحول میں زندگی بسر کرتے چلے آئے ہیں۔ فوجی ، جنگجو اور  شہنشاہ آتے  جاتے رہے لیکن  انہوں نے مسلمان معاشروں  کے اخلاقی ڈھانچے  کا ہمیشہ  تحفظ کیا تھا۔

مسلم امہ   کی تخلیق  سائنسی، فنونی اور  علمی  شہہ پاروں کا  ان کی سر زمین   پر ہونے والے دو عظیم حملوں ،  یعنی صلیبیوں اور منگولیوں  کے حملوں  کے دوران اور بعد میں  منظر عام پر آنا محض ایک اتفاق نہیں  ہے۔ صلیبیوں  نے القدس پر  سن 1099 میں قبضہ جمایا  اور  اس سر زمین پر  اس کے ماضی میں کبھی نہ دیکھنے والی خون کی نہریں بہائیں۔منگولیوں نے ان کےراستے میں آنے والی ہر چیز کو ملیا میٹ کر ڈالا اور  سن 1258 میں بغداد کے گلی کوچوں  کو خون کے رنگ  میں ڈبو دیا اور  ایک دور کی طاقتور   سلطِنت عباسیہ کا شیرازہ بکھیر دیا۔ مسلمانوں کے  بیچ سیاسی  جنگیں  12 ویں اور 13ویں صدیوں اور حتی بعد کے ادوار میں بھی تواتر سے جاری رہیں۔ تا ہم  ان میں  سے کوئی بھی شعوری و روحانی   علوم   کے  ہر شعبے میں   مسلم علماء   کی ایک طویل فہرست  کے  جنم پانے  اور ان  کے احسن امور کی راہ میں رکاوٹیں    نہ ڈال  سکیں۔ امام غزالی ، فخری الا دین الا راضی، الا سیوتی، ابنِ سینا، ابنِ رشد،  ابن  ہاضم،  مولانا  جلا الدین رومی، ابن ِ عربی، سخرا واردی الا بیرونی،  ناصر الا تسی،  ابن ِ خالدون  کی طرح کی  سینکڑوں ہزاروں شخصیات  نے ان  کے ارد گرد  سیاسی و فوجی اتار چڑھاؤ  کے باوجود      کائناتی تہذیبی   کی نشاط میں اہم کردار ادا کیا۔

عظیم سطح کے سیاسی   و فوجی تصادم،عوام الناس کی طرح  سائنسی و فنونی    سماجی زندگی  کے لیے بھی    نقصان    دہ ثابت ہوئے۔ تا ہم،   یہ ہماری   شعوری   سُستی اور اخلاقی     سمجھ بوجھ سے ہٹ کر   زندگیوں کو حق  بجا نب  ٹہرانے  کے لیے ہر گز ایک بہانہ نہیں  بن سکتا۔  لیکن    اس کے  بر عکس امت کے با   شعور اور روحانی رہنماؤں   اور سربراہان نے  بحرانوں  کو زیادہ   تخلیقی ، لچکدار اور ذمہ دار زندگی  بسر کرنے  کے مواقعوں  میں بدلا۔ انہوں  نے اپنے فن پاروں کی  تخلیق کے لیے سیاسی و فوجی بحرانوں کو حل کیے جانے کا انتظار نہ کیا۔ بلکہ اس کے بر عکس   مضبوط شہہ پاروں    کی مزاحمت اور   ان کے دوام نے  طویل مدت میں سیاسی   تصادم  کے حل میں معاونت فراہم کی۔

مسلمان فلاسفروں ،  علما و  فنکاروں کے منفرد  نظریات کے درمیان  نظریاتی   اختلافات اور بحث و مباحثہ  پیدا ہونا     ایک  حقیقت ہے۔   لیکن صد ہا سال تک یہ    سائنسی و فنونی  رسم و رواج کو  جاری رکھنے والے سماجی تصورات اور  با شعوری  نکتہ نظر   کے مالک  تھے۔ یہ  " قیمتی سرمائے    کے اندر یکسانیت" یعنی  وحدت   فل قطرہ  اصول  پر کار بند رہنے والے  ایک   نظریاتی و تخیلی ماحول میں     کام کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اتحاد  کی واحد  شکل نہ ہونے  اور   تنوع    کے  افراتفری کا موجب نہ ہونے     کا دفاع کیا  تھا۔

ہم  اس باشعوری اور روحانی     نکتہ نظر  کے اتحاد اور سالمیت   کے وجود کے  موجودہ  مسلم اُمہ   میں اب جگہ   نہ پانے سے  با علم ہیں۔ مسلم روشن خیال  شخصیات  نہ تو اپنے  رسم و رواج سے  پوری طرح   وابستہ ہونے  کے احساس کی مالک   ہیں  اور نہ ہی   جدید دنیا کے نظریے  سیکولرزم   کو ہضم     کر سکی ہیں۔ یہ شان و شوکت والے   ماضی ،  جھڑپوں اور تصادم  سے بھرے حال  اور  کسی  غیر معینہ مستقبل  کے درمیان  کشمکش کے شکار ہیں۔ متضادو   ایک   دردناک طریقے سے   جہاں شمولیت اور  دو طرفہ  تعاون     میں اضافہ ہونے والے عصر حاضر میں قومی ، ثقافتی اور  مذہبی    شناخت ہمارے   نکتہ نظر اور رد عمل  کو  دھندلا   بنا       رہی ہے۔  جس کا نتیجہ     دماغی و روحانی   تقسیم  ہے  کہ جس کا بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔  یہ  باہمی  تقسیم اور  تفریق کو مزید  شہہ   دے رہی ہے، اجنبیت   اور  ختم نہ ہونے والے تصادم کی  وجہ بن رہی ہے۔

مسلم اُمہ  کو  اس مفلسی و غریبی  کے ماحول سے نجات پانی چاہیے  اور   اپنے دماغی و روحانی      ماحول پر مبنی      ایک دنیا کے قیام  میں بر سرپیکار رہنا چاہیے۔ اپنے رسم و رواج  اور  بنیادوں  سے مضبوطی سے وابستہ  رہنے کے ساتھ ساتھ     اپنی زندگیوں کو وسیع  افق پر مبنی   سوچ  کے ساتھ   بسر کرنا  چاہیے۔  سیاسی تنازعات  کو محض  موجودہ   دنیا کے ماحول  کو  سمجھنے کے حوالے سے کسی مشترکہ  اصول اور  لائحہ عمل کی تشکیل  کے ساتھ  ہی   دور کیا جا سکتا ہے۔

 

 



متعللقہ خبریں