اسلامی تشخص کا تحفظ اسلام کی وسیع المشربی اور عالمگیریت کے تحفظ میں پوشیدہ ہے

سنّی اور شعیہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی فرقہ وارانہ تناو کا دارو مدار مسلمانوں حکومتوں کے درمیان قومی مفادات ، قوت  کی کھینچا تانی اور جانشینی کی جنگوں  پر بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ عالمی طاقتوں کی مسلمان ممالک میں مداخلت پر ہے۔ ابراہیم قالن

480452
اسلامی تشخص کا تحفظ اسلام کی وسیع المشربی اور عالمگیریت کے تحفظ میں پوشیدہ ہے

مسلمانوں کو  تشدد پسند  ی اورانتہا پسندی   کو پروان چڑھانے والوں کی جگہ  اپنے قومی، نسلی، مذہبی شناخت کو مذہب اسلام کی  اندورنی روح اور اتحاد  و یک جہتی کا خیال رکھتے ہوئے ہیاپنے تشخص کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

سن 1901 میں شائع ہونے والے  فرانسیسی استعماری دور کے جریدے   " Questions diplomatiques et colonials کے   ایڈیٹر ایڈمنڈ  فیضی نے یورپین  گلوکاروں  کے  ایک گروپ اور استعماری قوتوں کے منتظمین سے  اسلام کے مستقبل کے بارے میں سوالات کیے تھے کہ اسلام کا مستقبل کیسا ہوگا؟ اس بارے میں کروائے جانے والے دلچسپ  سروئے  کے  ایک صدی سے کچھ عرصہ زائد  گز جانے کے باوجود  اگ ان سوالات کے جوابات پر ایک نگاہ دالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ زیادہ  تبدیلی  رونما نہیں ہوئی ہے۔

یہ جوابات اس دور کے  یورپی باشندوں کی سوچ  و فکر کی عکاسی   کرتے ہیں۔ تاہم  عالمِ اسلام  نے جو زخم خود لگائے تھے ان کی بھی اس سے عکاسی ہو رہی تھی۔

فیضی کے  مستقبل کے بارے میں سوالات کا جواب دینے والے مشرقی علوم کے ماہرین  میں  ہنگری کے   ایگناک  گولدزہر ، جرمنی کے  مشرقی علوم کے ماہر  مارٹن  ہارٹ مین اور فرانسیسی  ایڈمینڈ  ڈوٹے بھی شامل تھے۔

سب ماہرین کے اپنے اپنے جوابات سے اس دور  میں مذہب اسلام کے خلاف مغرب کو مداخلت کرتے ہوئے  مسلمانوں کو مہذب بنانے  کے مشن  کی ضرورت  ہونے، ایک مردہ روایت، خستہ  تہذیب قرار دینے سے ان کے اس  دور  کے بارے میں  یورپین کی انیسویں صدی کی استعماری سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔

جوزف ماساد سن 2015 میں  شکاگو  یونیورسٹی  پبلیکیشن سے شائع ہونے  والی کتاب" Islam in  Liberalism"  میں  وہ اس رویے اور سوچ  کے بارے میں بڑے ماہرانہ  طریقے سے اپنا جائزہ  اور تنقید پیش کرتے ہیں  ۔

اس سوال  کا جواب دینے والوں میں  فرانس میں اسلامی فلسفے کے ماہر  مذہبی امور کے تاریخدان  Carra de Vauxاپنے  سیاہ  و سفید  جائزے اور   لا حاصل تجویز کے ذریعے  اپنا نام رقم کروا لیتے ہیں۔

Carra de Vaux کہتے ہیں کہ  مذہب ِ اسلام   مغرب اور  یورپین  کی اقدار  جس  جمہوریت اور لبرل ازم کا نام دیا جاتا ہے  کو حاصل کرنے ہی سے  مفاہمت قائم ہوسکتی ہے۔ وہ لبرل ازم   کے ذریعے مذہب اسلام کو زیادہ  بہتر طریقے سے اپنی اشعات کرسکتا ہے جس طرح کی  مذہب اسلام ماضی میں  " رواداری" کے جذبے کو اپناتے ہوئے کرتا رہا ہے۔

دریں اثنا Carra de Vaux  کا مقصد دراصل   مذہب اسلام کو لبرل بنانا  اور اس تھیوری کو فروغ دینا نہیں تھا بلکہ وہ مسلمانوں  پر مغرب کی حاکمت اور دباو کو جاری رکھنے  کے طریقہ کار کی تلاش میں تھے۔

استعماری دور میں صبر و تحمل اور  کچلنے جانے والے  عناصر کو نئے سرے  منظم کرنے  کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر مغرب مسلمانوں   پر مکمل طور پر حاکم ہونا چاہتا ہے یا نو آبادی  کے زمرے  میں لانا چاہتا ہے تو  اس کے بارے میں   Carra de Vaux اپنی تجویز کچھ اس طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ "  ہمیں عالم محمدی کو تقسیم کرنے  اور  ان کے اخلاقی یکجہتی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں  یہ جس طرح  آپس میں  سیاسی اور  نسلی طور پر تقسیم ہیں ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

Carra de Vauxسیاسی ، نسلی،  اور فرقہ واریت پر زور دیتے ہوئے   قومیت پسندی کو ہوا دینے  اور مذہب سے متعلق  معاشرے میں جس احساسیت کا اظہار کیا جاتا ہے اس کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کارا ڈی و اکس   جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ کہ "یورپی استعماریت حتمی حکمرانی کے مقصد کے لئے ہے"۔ اس نقطہ نظر  اور اس روح کے ساتھ  اس کی باقاعدہ شکل میں پیش کردہ تجویز کچھ اس طرح ہے "  ہمیں اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہیے۔ لیکن اس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہم اس کے ذیلی راستوں اور صوفی ازم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر ہم محتاط شکل میں کام کریں تو یہ پالیسیاں اسلام کو کمزور کریں گی ، بے اطمینان کریں گی اور بلا آخر بے حس کر دیں گے ۔ اس طرح اسلام کبھی بھی بڑے انقلاب  کو برپا کرنے کی طاقت حاصل نہیں کر سکے گا۔

کارا ڈی و اکس  کے مفروضوں  کی قدر و قیمت   پر دھیان دئیے بغیر جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ استعماریت  اور ثقافتی  حکمرانی کی میراث  نے اسلام  کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونےا ور اس کے داخلی تنوع  میں جوڑ توڑ  کا راستہ ہموار کیا۔ ذہنی و روحانی اتحاد سے محروم  اور شاندار ماضی  سے بد بخت حال کے درمیان  زبوں حال مسلمان معاشرے  نہ تو اپنی روایات کی پاسداری کر سکے  اور نہ ہی اپنی ثقافتوں  اور تہذیبوں   کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے  خود کو جدت دے سکے۔ استعماریت  اور ثقافتی  ایمپریل ازم    نےوہ سب کچھ  کیا جس نے مسلمان دنیا کو اس بات پر قائل کر دیا کہ اب اس کی  داخلی   رنگا رنگی کوئی بڑا انقلاب  نہیں لا  سکتی اور  اس قدر بوسیدہ ہے کہ  نئی دنیا  کے نظم و نسق کے بنیادی  مضبوط  ڈیزائنوں  کو متاثر نہیں  کر سکتی۔

ہم استعماریت کی اس نقصان دہ میراث  کو دیکھنے پر مجبور ہیں لیکن ایک طرف یہ سوال کرنے کی بھی حالت میں ہیں کہ مسلمان دنیا  اس وقت جس حالت میں  ہے اس تک پہنچنے میں خود اس کا اپنا کتنا کردار ہے۔ مثلاً سنّی اور شعیہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی فرقہ وارانہ تناو کا دارو مدار مسلمانوں حکومتوں کے درمیان قومی مفادات ، قوت  کی کھینچا تانی اور جانشینی کی جنگوں  پر بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ عالمی طاقتوں کی مسلمان ممالک میں مداخلت پر ہے۔

ویژن اور قیادت کی کمی اور تعصب تمام مسلمانوں  کو کبھی ختم نہ ہونے والی  جدوجہد کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ اور یہ جدوجہد کسی مذہبی فرقے کسی نسلی تفاوت  یا شہریت پر دھیان دئیے بغیر سب کو اجتماعی شکل میں  نقصان پہنچا رہی  ہے، ہر ایک کو اجتماعی شکل میں  کمزور کر رہی ہے۔

گلوبلائزیشن ایک متنازع شکل میں، اسلامی روایت میں متعارف کروائی جانے والی اعتقاد و اقدار  کے حامل معاشروں  اور امت جیسی تہہ دار  تعبیروں کو نمایاں کر کے ،شناختوں کے اتحاد  اور اختلافات جیسے رجحانات  کو مضبوط بنا رہی ہے۔ کلاسیکی اسلام کو  امت  کی اُس باہم متحد  سوچ   نے فلسفے سے لے کر فن تک، جغرافیہ سے لے کر سیاست تک ہر موضوع  میں بین الاقوامی  اور عالمی  نقطہ نظر عطا کیا۔ اسلام کی وسیع المشرب روح  باہر سے نہیں اس کے اندر سے ظہور پذیر ہوئی ہے جسے ابن عربی نے  اختلافات کو رد کئے بغیر ہر چیز کو اتحاد  کے نقطہ نظر کے ساتھ  "اختلافات میں اتحاد "کی شکل میں متعارف کروایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اتحاد یک رنگی کے  اور  اختلافات یا رنگا رنگی  بد امنی  یا بے ترتیبی کے معنی نہیں رکھتے۔

آج مسلمانوں کو اس بنیادی اصول کی پاسداری کرنا چاہیے۔ انسانوں کے ذہنوں میں اور احساسات میں حتمی دوئی کو تخلیق کرنے  والی اور تشدد  کے حامی متعصبوں  کی طرف سے آسانی سے موڑی توڑی جا سکنے والی متضاد شناختوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی جگہ قومی ، نسلی اور مذہبی فرقوں کی بنیادیں ایک ایسی اخلاقی اور انسانی زمین پر استوار کرنا چاہئیں جو ایک طرف تو اسلام کے داخلی اتحاد اور صلابت کا تحفظ کرے اور دوسری طرف اس کے عالمی اوروسیع المشرب نقطہ نگاہ کو زندہ رکھے۔ یہ چیز داعش اور القائدہ  جیسے تشدد  کے حامیوں  اور  متعصبوں کے لئے بھی اور اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو نسلی  اور مذہبی فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے خواہش مند دیگر حلقوں کے لئے بھی بہترین  تریاق ہو گی۔



متعللقہ خبریں