ترکی کا ثقافتی ورثہ 14

پیغمروں کا شہر شانلی عرفا

465756
ترکی کا ثقافتی ورثہ 14

جنوب مشرقی اناطولیہ میں شہر پیغمبراب کے نام سے مشہور عرفا اپنے تاریخی مکا نات ، اتاترک بیراج اور دیگر رنگا رنگ ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے ۔ یہاں کا موسم گرمیوں میں سکت گرم اور سردیوں میں بارانی اور سرد ہوتا ہے ۔
شانلی عرفا کی تاریخی و ثقافتی اقدار کا رکن یہاں کے انسانوں میں بھی جھلکتا ہے ۔ اس شہر کے قیام کی تاریخ کا صحیح اندازہ نہین ہے لیکن بعض روایات کے مطابق ، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے یہاں قیام کرنے سمیت گندم کی پہلی فصل بوئی اور دنیا کو کاشت کاری سے متعارف کروایا ۔ ایک دیگر روایت کی رو سے یہ شہر طوفانِ نوح کے بعد قائم ہونے والا پہلا شہر تھا ۔ اس شہر میں اکاد، سومیر ، بابیل،حطیطی ، حُری،آسور،پارس،مقدونیہ،رومی اور بازنطینی جیسی مختلف تہاذیب کا راج رہا جس کے بعد یہ شہر سلچوک اور عثمانیوں کے زیر تسلط آگیا ۔ اس شہر میں مختلف پیغمبروں کی آمد اور قیام کی وجہ سے یہاں مذہبی سیاحت بھی کافی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت نوح کی نسل سے تعلق رکھنے والے حضرتِ ابراہیم کی پیدائش اسی شہر میں ہونے سے متعلق بھی روایات پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر تین آفاقی مذاہب میں مقدس مانا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم کے پوتے اور بنی اسرائیل کے سردار حضرتِ یعقوب کی شادی بھی عرفا کے ایک مقام حران میں ہوئی تھی جبکہ حضرت ایوب بھی اسی شہر میں بیمار ہو کر وفات پائے تھے اس کے علاوہ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ حضرت موسی نے شعیب نامی شہر کے قریب حضرتِ شعیب سے مالقات کی تھی جو کہ موجودہ دور میں عرفا کے نام سے جانا جاتاہے ۔


شانلی عرفا کا شہر مسیحی برادری کےلیے بھی مقدس ہے ۔ 132 ویں صدی قبل مسیح سے 250 ویں صدی کے درمیان یہاں حکمران ہونے والے اوسریون دور میں عیسائیت کو دنیا میں پہلی بار ایک دین کا درجہ حاصل ہوا ۔ اوسریون کے فرماںروا نے حضرت عیسی کو اس شہر کا دورہ کرنے کی دعوت دی ، یہاں یہ بھی اعتقاد پایا جاتاہے کہ حضرت عیسی نے اپنا چہرہ ایک رومال سے پونچا تھا کہ جس پر معجزاتی طور پر ایک تصویر نمودار ہو گئی تھی جو کہ اس شہر کو مقدس قرار دینے میں کافی اہم دلیل ہے ۔
اس شہر کا نام تاریخ میں کئی بار بدلا ۔عربوں نے اسے روحہ پکارنا شروع کر دیا جو کہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے عرفا ہوگیا ۔ عرفا کا قلعہ شہر میں واقع ایک چوٹی پر موجود ہے ۔ قلعے کے ستون دس تا پندرہ میٹر بلند ہیں کہ جو پتھروں سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان ستونوں پر فرماںروا مانو اور اس کی بیٹی ملکہ سالمت کے اعزاز میں یہ ستون تعمیر کروائے گئے ہیں، فرزندِ آفتاب ۔ افتوحہ کی عبارت کندہ ہے۔ فرماں روا مانو نے یہاں دو سو چالیس اور دو سو بیالیس صدی عیسویں میں یہاں حکمرانی کی ۔
شانلی عرفا میں واقوع اتاترک بیراج جھیل شہر کے مرکز میں موجود ماہی جھیل سیاحتی نقطہ نگاہ سے کافی اہم مقامات ہیں۔ ماہی جھیل دراصل عین الزلیخہ اور خلیل الرحمن جھیلوں پر مشتمل ہے ۔مقامی آبادی کے مطابق ، خلیل الرحمان جھیل وہ مقام ہے کہ جہاں نمرود نے حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا تھا جس کے بعد یہ آگ پانی اور لکڑیاں مچھلیوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ حضرت ابراہیم کی دیکھا دیکھی نمرود کی لے پالک بیٹی زلیخہ نے بھی خود کو اس آگ میں جھونک دیا تھا کہ جس کے مقام پرآج عین الزلیخہ جھیل موجود ہے ۔
ماہی جھیل کے اطراف میں تیرہویں صدی کے اوائل میں ملک اشرف کی طرف سے تعمیر کردہ خلیل الرحمن یا دوسرے الفاظ میں مقام جامع مسجد ہے کہ جس کے مغر ب میں مدرسہ واقع ہے ۔ ماہی جھیل کے شمال میں رضوانیہ جامع مسجد بھی ہے جو کہ دور عثمانیہ میں راقہ شہر کے گورنر رضوان احمد پاشا کی طرف سے اٹھارویں صدی کے اوائل میں تعمیر کروائی گئی تھی۔
شہر کی قدیم ترین مسجد کا نام اولو مسجد ہے جبکہ ایک سناگوگ کو پانچویں صدی میں گرجا گھر میں تبدیل کیا گیا تھا کہ جس میں لال پتھر کا استعمال کیا گیاہے یہی وجہ ہے کہ اسے سرخ کلیسہ کہا جاتا ہے۔



متعللقہ خبریں