کورونا کی کامیاب دوا کے پیچھے ایک ترک جوڑے کا ہاتھ ہے

55 سالہ اوعور شاہین اور ان کی 53 سالہ بیوی اوزلم توریجی دونوں ہی پیشے کے لحاظ سے سائنس داں ہیں جو کینسر کی امیونوتھراپی میں بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں اور فائزر کی کورونا کے خلاف دوا کی تیاری میں ان کا ہاتھ ہے

1525382
کورونا کی کامیاب دوا کے پیچھے ایک ترک جوڑے کا ہاتھ ہے

فائزر کمپنی نے کووڈ 19 کے خلاف ویکسین کی انسانی آزمائش کے ابتدائی نتائج کا اعلان کیا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کی پشت پر جرمن نژاد ترک میاں بیوی کا نہایت اہم کردار ہے۔

55 سالہ اوعور شاہین اور ان کی 53 سالہ بیوی اوزلم توریجی دونوں ہی پیشے کے لحاظ سے سائنس داں ہیں جو کینسر کی امیونوتھراپی میں بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔

نیویارک میں قائم فائزر کمپنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ویکسین 43 ہزار سے زائد افراد پر آزمائی گئی ہے جس میں امریکی، جرمن اور ترک شامل ہیں لیکن درحقیقت ایک اور جرمن کمپنی، بایون ٹیک نے اس اہم ویکسین میں نہایت کامیاب کردار ادا کیا ہے۔

یہ کمپنی جرمنی میں پناہ لینے والے ترک جوڑے نے قائم کی ہے۔
جرمن شہر مینز میں قائم بایونٹیک اس لحاظ سے ایک بڑی کمپنی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جس نے کورونا ویکسین کے لیے بڑے پیمانے میں طبی آزمائش کی ہے اور اب تک نئی ویکسین 90 فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے کوئی منفی اثرات بھی سامنے نہیں آئے۔

اب حال یہ ہے کہ اوعورشاہین اس وقت جرمنی کے 100 امیرترین افراد میں شامل ہیں اور کمپنی کے بورڈ اراکین میں ان کی بیگم بھی شامل ہیں۔ گزشتہ سال بایون ٹیک کے اثاثے 4.6 ارب ڈالر تھی اور گزشتہ ہفتے اس کے حصص 21 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔

یہ جوڑا سرطان کے ابھرتے ہوئے علاج یعنی امیونوتھراپی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
 سال 2008میں اس کمپنی کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اب تک بہت ترقی کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود اووَر انتہائی منکسر المزاج اور سادہ ہیں۔ وہ اہم کاروباری میٹنگ میں سادہ سی جینز پہن کر آتے ہیں اور سائیکل ہیلمٹ پہن کر پشت پر بیگ لٹکائے سائیکل چلاتے نظر آتے ہیں
وور شاہین ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور وہ جرمنی کے شہر کولون کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر بن گئے جہاں ان کی ملاقات اوزلم سے ہوئی۔ یہ دونوں سائنسی تحقیق کے جنونی بھی ہیں اور اپنی شادی کے روز بھی جرمنی کے شہر ہیمبرگ کی ایک تجربہ گاہ میں سائنسی تفتیش میں مصروف تھے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خود جسم کے امنیاتی دفاعی نظام کو سرطان سے لڑنے پر نمایاں تحقیق کی ہے اور یوں کینسر امیونو تھراپی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔

سال 2001ء میں انہوں نے گینی میڈ کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھی جہاں کینسر سے لڑنے والی اینٹی باڈیز پر کام آگے بڑھا اور یہی تجربہ کورونا ویکسین سازی میں بھی کام آیا تاہم 2016ء میں یہ کمپنی جاپان کو تقریباً 1.4 ارب ڈالر میں فروخت کردی گئی۔

پھر دونوں نے ایک اور کمپنی بایون ٹیک کی بنیاد رکھی۔ اس مرتبہ شاہین اور اوزلم نے ایم آر این اے کو سرطان سے لڑنے کے لیے استعمال کیا۔

جنوری 2020ء میں چین کے شہر ووہان میں کورونا وبا پھوٹنے کے بعد اوور شاہین نے  ایم آر این اے سے ویکسین بنانے پر کام شروع کردیا۔

’لائٹ اسپیڈ‘ نامی پروجیکٹ کے تحت بایون ٹیک نے 500 ماہرین کے اسٹاف کو تحقیق پر لگا دیا تاکہ کووڈ 19 کے خلاف مؤثر مرکبات  بھی تلاش کیے جاسکیں۔

اب اس تمام کاوش کا پھل اس ویکسین کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔



متعللقہ خبریں