چینکی امریکہ کے خلاف جوابی کاروائی، امریکی شہریوں پر پابندایاں لگانے کا فیصلہ

بیجنگ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات متعلقہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کی بنیادی روایات کے منافی ہیں اور چین کے داخلی امور میں سنگین مداخلت کے مترادف ہیں

1679450
چینکی امریکہ کے خلاف جوابی کاروائی، امریکی شہریوں پر پابندایاں لگانے کا فیصلہ

 

چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے چین کے ہانگ کانگ میں واقع رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر اور سات نائب ڈائریکٹروں کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کے رد عمل میں متعدد امریکی شہریوں کے خلاف پابندیاں عائد کررہا ہے۔

ان میں سب سے اہم نام امریکہ کے سابق کامرس سیکرٹری ولبر راس کا ہے۔

چین نے کہا ہے کہ وہ جن افراد کو ہدف بنائے گا، ان میں امریکہ چین اکنامک اینڈ سیکیورٹی ریویو کمیشن کی چیئر پرسن کیرولین بارتھولومیو، کانگریس میں چین کے اسٹاف سے متعلق انتظامی کمیشن کے سابق سربراہ جوناتھن اسٹرائیوز، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے دویون کم، انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کے نائب سربراہ ایڈم کنگ، چین سے متعلق ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر صوفی رچرڈسن اور ہانگ کانگ ڈیموکریسی کونسل کا ادارہ شامل ہے۔

بیجنگ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات متعلقہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کی بنیادی روایات کے منافی ہیں اور چین کے داخلی امور میں سنگین مداخلت کے مترادف ہیں۔ اور یہ کہ چین اس کی سختی سے مخالفت اور شدید مذمت کرتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ''ہانگ کانگ کے امور خالصتاً چین کا اندرونی معاملہ ہے۔ بیرونی طاقتوں کی جانب سے ہانگ کانگ کے امور میں کسی قسم کا اقدام محض ایک رکاوٹ ہو گا''۔

چین کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کی ناقد صوفی رچرڈ سن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''میں یہی کہوں گی کہ یہ محض دھیان ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ ہمیں بہت کام کرنا ہے اور لگائی گئی پابندیاں کسی طرح سے بھی ہمارے کام میں حائل نہیں ہوں گی''۔

انہوں نے کہا کہ ''میری صرف یہی خواہش ہے کہ حکومت چین اپنی توانائی بچا کر ایغور آبادی پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم اور انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں بند کرنے پر صرف کرے''۔

امریکہ نے حالیہ دنوں میں چینی عہدے داروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ امریکی کمپنیوں کو ہانگ کانگ میں کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کی صورت میں خطرات پیش آنے سے خبردار کیا تھا۔



متعللقہ خبریں